بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || کارل مارکس نے ہندوستانی معاشرے کے بارے میں اپنے 1853 کے مضمون میں لکھا تھا کہ اس معاشرے میں ایک فعال تاریخ کا فقدان ہے اور جسے ہم تاریخ کہتے ہیں وہ زیادہ تر غیر ملکی جارحوں کی داستان ہے۔
مارکس کا مطلب تہذیب یا ماضی کا فقدان نہیں تھا، بلکہ انھوں نے ہندوستان کے جمود اور غیر فعال سماجی ڈھانچے پر زور دیا، جس کی بنیاد دیہی برادریوں اور ذات پات کے نظام پر ہے، جہاں یورپ میں تاریخی تبدیلی کا سبب بننے والے عاشی اور سماجی محرکات موجود نہیں تھے۔
بہت سے یورپی مورخین ہندوستان کو دستاویزی تاریخ سے عاری تہذیب سمجھتے تھے۔ یونان، چین یا مصر کے برعکس، ہندوستانی تاریخ زیادہ تر زبانی اور حقیقت اور خرافات کا مرکب ہے، اور ہندوستان ایک قومی-ریاست سے زیادہ ایک جغرافیائی تصور تھا، جہاں وسیع لسانی، مذہبی اور سیاسی تنوع پایا جاتا تھا۔
ہندوستان پوری تاریخ میں بہت سے حملہ آوروں کے زیر قبضہ رہا ہے۔ طویل نوآبادیاتی حکومت، ہندو مذہب کے تناسخ کے عقیدے اور ذات پات کے نظام نے مل کر ایک ایسی ثقافت کو جنم دیا جو تقدیر کو قبول کرنے اور غیر فعال (انفعالی) رویہ اپنانے پر، قائم ہے۔
یہ ذہنیت گاندھی کی قیادت میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک اور عدم تشدد کے فلسفے میں بھی پوری طرح عیاں ہوئی۔ اس کا چین کے خونی انقلابی طرز عمل سے موازنہ، دونوں ممالک کی قومی سوچ اور ملی جذبے میں بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔
بھارت کو مینوفیکچرنگ بیس اور صارفین کی منڈی کے طور پر چین کے متبادل کے طور پر ابھرنے کے مغربی پروپیگنڈے کے باوجود، اقتصادی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت چین سے پیچھے ہے۔
- جی ڈی پی (2024): ہندوستان $3.9 ٹریلین بمقابلہ چین $19 ٹریلین
- فی کس جی ڈی پی: $2,800 بمقابلہ چین $13,800
- تجارتی سامان کی برآمدات: $400 بلین بمقابلہ چین $3.5 ٹریلین
- جی ڈی پی میں صنعتی پیداوار کا حصہ: 13% بمقابلہ چین کا 27%
- عالمی صنعتی قدر میں ہندوستان کا شامل حصہ: 2.8% بمقابلہ چین کا 35%
اس کے علاوہ، ہندوستان کو ناقص انفراسٹرکچر، وسیع پیمانے پر بدعنوانی، افسر شاہی، ہنر مند افرادی قوت کی قلت، اور چین کی سپلائی چین پر انحصار جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ زیادہ ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹیں بھی بھارت میں کثیر قومی کمپنیوں کی موجودگی میں رکاوٹ ہیں، اور دنیا کی بہت سی مینوفیکچرنگ کمپنیاں، بشمول Tesla، Fiat، اور General Motors نے بھارت میں اپنی موجودگی کو کم یا بند کر دیا ہے۔
سماجی اور ثقافتی طور پر، ذات پات کے نظام اور تناسخ پر اعتقاد نے ترقی اور سماجی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالی ہے، جس سے ایک ایسی ذہنیت پیدا ہوئی ہے اور ایک ایک اصطلاح ایجاد کی گئی ہے: "بھارت فتح پروری" (Bharat Triumphalogy) خود فریبی کا جشن منانے پرمرکوز اس عجیب ذہنیت کو بیان کرتی ہے؛ یوں حقیقی ناکامیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور قومی خود فریبی کو فروغ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت تاریخی ناکامیوں اور شکستوں کو فتح کے طور پر منانے اور ریکارڈ کرنے پر مجبور ہؤا ہے، جیسے کہ پاکستان کے ساتھ مختصر فضائی جنگ، جسے "آپریشن سندور" کا نام دیا گیا اور ناکامی کے باوجود فتح کا جشن منایا گیا۔
جغرافیائی-سیاسی لحاظ سے، ہندوستان نے روس اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے ثالثی کا کردار برقرار رکھا ہے۔ تاہم، ہندوستان کے پاس ایک بڑا علاقائی یا عالمی کھلاڑی بننے کے لئے ضروری اقتصادی طاقت اور فیصلہ کن جغرافیائی-سیاسی عزم (Geopolitical Decisiveness) کا فقدان ہے۔ اس کے بہت سے پڑوسی بھی بھارت کو مثبت نظر سے نہیں دیکھتے۔
مجموعی طور پر، اقتصادی، سماجی، اور ادارہ جاتی مسائل کی وجہ سے ہندوستان نے ابھی تک اپنے آپ کو مینوفیکچرنگ بیس یا کنزیومر مارکیٹ کے طور پر چین کے متبادل کے طور پر تبدیل نہیں کیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے، تعلیم، پیداواری صلاحیت اور نئی صنعتوں میں خلاء وسیع ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی قومی اور ثقافتی ذہنیت، اس کا ذات پات پر زمینداری جاگیرداری نظام "علامتی فتوحات پر ارتکاز" کے ساتھ مل کر بنیادی اصلاحات اور حقیقی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ "ہندوستان کی صلاحیت" کے بارے میں مغربی پروپیگنڈہ بڑی حد تک فریب پر مبنی ہے اور ملک کی معاشی اور سماجی حقیقت سے بہت دور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: فاطمہ صادقی، ماخوذ از ویب سائٹ "Kritik Bakış" بقلم چینی قلمکار ہوا بن (Hua Bin)
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ